لسانیات اکائی ۱
زبان کیا ہے
زبان (لسان) ربط کا ایک ذریعہ جسے معلومات کا تبادلہ کرنے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ معلومات کا تبادلہ تحریری طور پر٬ اشاروں سے ، اشتہارات یا بصری مواد کےزبان استعمال سے ، علامتوں کے استعمال سے یا براہ راست کلام سے ممکن ہیں۔ انسانوں کے علاوہ مختلف جاندار آپس میں تبادلہ معلومات کرتے ہیں مگر زبان سے عموماً وہ نظام لیا جاتا ہے جس کے ذریعے انسان ایک دوسرے سے تبادلۂ معلومات و خیالات کرتے ہیں۔
پروفیسر ابوالکلام زبان کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ
زبان من مانی صوتی علامتوں کا ایک نظام ہے۔ جسکے ذریعہ سماجی گروپ ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہے۔
اس تعریف میں نظام سے مراد ۔مرئی اور غیر مرئی اشیاءکا ایک ایسا نظم جسکو دیکھنے کے بعد پتا چلے کہ اس میں کچھ ترتیب ہے۔
لسانیات کیا ہے
زبان کی اگلی کڑی لسانیات ہے ۔ لسانیات عربی کے لفظ لسان سے ماخوذ ہے اسکا مطلب زبان کا علم‘اصطلاح میں لسانیات علم کی وہ قسم ہے جو زبان کی بنیاد‘ اصلیت اور اسکی ماہیت کا مطالعہ کرتی ہے اسکی پیدائش‘ دائرہ کار اور اس میں ردو بدل جیسے مسائل کو زیرِبحث لاتی ہے لسانیات کہلاتی ہے ڈاکٹر حامد اللہ ندوی کچھ یوں رقم طراز ہیں
زبان کے مختلف پہلوؤں کا فنی مطالعہ لسانیات کہلاتا ہے زبان کا یہ فنی مطالعہ دوزمانی بھی
ہوسکتا ہے اور ایک زمانی بھی‘ دوزمانی مطالعے کی حیثیت تاریخی ہوتی ہے جس میں کسی
زبان کی عہد بہ عہد ترقی یا مختلف ادوار میں اسکی نشوونما کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ایک زمانی
مطالعے کی حیثیت توضیحی ہوتی ہے جس میں ایک خاص وقت یا خاص جگہ میں ایک زبان
جس طرح بولی جاتی ہے اسکا مطالعہ کیا جاتا ہے
پروفیسر ابو الکلام کے نزدیک لسانیات ، زبان کے صوری اور معنوی پہلووں کے سائنسی مطالعے کا نام ہے ۔
صوری آواز ایسی آواز جو ارادۃََ اور بار بار نکالی جاسکے*
جسکے حروف بدلے جاسکتے ہوں اور ساتھ ہی*
آْواز پر معنی ہو یعنی جس میں معنی کا مخفی ہونا ضروری ہے۔ *
اب سیٹی کی آواز ، جانور کی آواز اور ڈکار وغیرہ مذکورہ قیود پر پورا نہیں اترتا لہذا انکو اس تعریف میں شامل نہیں کر سکتے۔ نوٹ۔
لسانیات کی اہمیت
لسانیات ایک سائنس کا درجہ رکھتی ہے اس میں زبان کا مشاہدہ کیا جاتا ہے جو کچھ انسان بولتا ہے اسکا مطالعہ مقصود ہوتا ہے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں
دی جاتی کہ انسان کو کیسے بولنا چاہئیے لسانیات میں عارضی نتائج کی تصدیق کی جاتی ہے آج زبان ‘انسان کی انفرادی اور سماجی زندگی کی ایسی ضرورت بن چُکی ہے کہ اس کے بغیر انسان کا تصور نہیں کیا جا سکتا یہاں تک کہ تمام علوم زبان ہی کے سہارے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔مولانا محمد حسین آزاد نے زبان کی کیا خوبصورت محاکاتی تعریف بیان کی ہے
وہ اظہار کا وسیلہ کہ متواتر آوازاں کے سلسلے میں ظاہر ہوتا ہے جنہیں تقریر یا سلسلہِ الفاظ
یا بیان یا عبارت کہتے ہیں اسی مضمون کو شاعرانہ لطیفے میں ادا کرتا ہوں کہ زبان(خواہ بیان)
ہوائی سواریاں ہیں جن میں ہمارے خیالات سوار ہو کر دل سے نکلتے ہیں اور کانوں کے رستے
اوروں کے دماغوں میں پہنچتے ہیں۔۔۔ تقریر ہمارے خیالات کی زبانی تصویر ہے
جو آوازکے قلم نے ہوا پر کھینچی ہے
محمد حسین آزاد نے کس قدر خوبصورتی کے ساتھ علمِ لسانیات کی ہر شاخ پر وار کیا ہے علمِ لسانیات میں صوتیات‘ لغویات‘نحویات اور مارفینیات خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ صوتیات لسانیات کی ایسی قسم ہے جس میں آواز سے متعلق بحث کی جاتی ہے اور اعضائے صوتی یعنی پھپٹڑے‘ حلقوم‘ بلعوم‘ حنجرہ‘ اعصابِ نطقی‘ منہ‘ ناک‘ تالو‘ زبان‘ دانت‘ اور ہونٹ آواز کے اصل سرچشمے تصور کیے جاتے ہیں لغویات یا معنویات سے مراد مطالب اور مفاہیم جاننے کا ہے اس میں الفاظ کو انکے معانی کی مناسبت سے پرکھا جاتا ہے اس میں مرکبِ مترادفی‘ مرکبِ عطفی‘ مرکبِ نحوی‘ مرکبِ فاعلی یا مشتق مرکبات سے لفظوں پر بحث کی جاتی ہے۔ دوسری طرف علمِ نحویات میں کلموں اور ان کی تبدیلیوں‘ جملوں کی ماہیت‘ ان جملوں میں کلموں کی ترتیب‘ مطابقت اور معنوی رشتوں کو موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے جبکہ علمِ مارفینیات علمِ گرائمر کی گردان سے متعلق ہے اردو میں اس کے لیے ’’ معنیہ‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاری ہے۔ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور کے بقول
لسانیات اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے زبان کی ماہیت‘ تشکیل و ارتقاء ،زندگی اور موت کے متعلق آگاہی ہوتی ہے
بقول پروفیسر ابوالکلام
کوئی بھی مضمون بےفائدہ وبے منفعت نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کی اہمیت ہے، لہذا لسانیات کے بھی بے شمار فوائد ہیں
ٌاس علم کےذریعہ قائل کے دماغ کے تفاعل تک پہنچا جاسکتا ہے
ٌاسکے علمی اور ادبی پس منظر یعنی اسکے بیک گراوٗنڈ سے واقف ہوا جا سکتا ہے۔
ٌمخففات جو ۳حرف سے زائد ہو اسکو ملاکر پڑھیں گے مثلا ٗ
UNICEF, LASAR, ANSA
اس تحقیق سے ایک مدلل قاعدہ بن گیا
لسانیات کی پانچ اہم اقسام یہ ہیں۔
ا۔ صوتیات ب۔معنویات ج۔نحویات د۔ مارفیات(صرفیات) ھ۔فونیمیات
ا۔صوتیات
صوتیات میں زبان میں آوازوں کی ادائیگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ آوازیں کیسے پیدا ہوتی ہیں اور ان کی درجہ بندی کس طرح کی جا سکتی ہے
صوتیات لفظ صوت سے نکلا ہے اور صوت سے مراد آواز کے ہیں۔ صوتیات لسانیات کی ایک ایسی صنف ہے جس میں آواز سے متعلق مطالعہ کیا جاتا ہے۔ صوتیات بولنے کی چیز ہے اور اسکا تعلق وترانِ صوت سے ہے۔
صوتیات ۔۔اسے لسانیات کی کلید بھی کہا جاتا ہے۔زبان آوازوں کے علامتی اور تصوراتی نظام کا نام ہے۔ انسانی دہن مختلف قسم کی آوازوں کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے۔ایک آواز دوسری آوازوں سے مل کر زبانوں کو جنم دیتی ہیں۔صوتیات لسانیات کا وہ علمی شعبہء ہے جس میں انسانی اعضائے تکلم سے پیدا ہونے والی ان آوزوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو مختلف زبانوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس مطالعے میں آوازوں کی تشکیل، ادائیگی، ترسیل، نیز آوازوں کی ان کے مخارج اور دیگر اعتبار سے درجہ بندی کی جاتی ہے۔
تلفظی صوتیات میں ان آوازوں کا مطالعہ جو کلام میں استعمال ہوتی ہیں اس حیثیت سے کیا جاتا ہے کہ وہ کس طرح انسانی آلات الصوت سے پیدا ہوتی ہیں۔
اعضائے اصوات
انسانی آواز کی پیدائش میں مندرجہ ذیل اعضا مل کر صوتی آلات کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ پھیپھڑے۔ حلقوم۔ بلعوم۔ حنضرہ۔ اعصابِ نطقی۔ منہ۔ناک۔ تالو۔ زبان۔ دانت۔ اور ہونٹ وغیرہ۔پھیپھڑے دھونکی کا کام کرتے ہیں اور یہ ہوا کے بہاو کو مطلوبہ دباو یا رفتار سے حلق میں گزرتے ہیں اور ایک تسلسل کو ضرورت کے مطابق قائم رکھتے ہیں۔ آواز کا اصل سرچشمہ حلق ہے۔ جس میں واقع اعصابی ریشے اس ہوا کے دباو سے متاثر ہو کر تھرتھرانے لگتے ہیں جس سے اس ہوا کے دباو سے ایک ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے۔اور لفظ اصوات کی صورت سامنے آتے ہیں۔
ب۔ معنیات
لفظوں اور جملوں کے مطالب اور معانی کا مطالعہ معنیات کہلاتا ہے۔ان مطالب کا زبانوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔لفظ اور معنی کے درمیان کیا رشتہ ہے۔یہ رشتہ منطقی ہے یا علامتی۔ان سب حقائق کا کھوج علم ِ معنیات سے لگایا جاتا ہے۔
لسانیات اگرچہ اردو میں ابھی کم سن علمی شعبہ ہے لیکن اس کے ظہور نے مختصر وقت میں اردو زبان کے حق میں وہ کر دکھایا جو روایتی علم زبان سالہاسال نہ کرسکا۔اردو کی بنیاد، اس کی اصل، اس کی جائے وقوع، ہم سایہ زبانوں کے ساتھ اس کا رشتہ بالخصوص ہندی کے ساتھ اس کا بہناپا وغیرہ وغیرہ یہ اور زبان سے جڑی اہم بنیادی باتیں جو ابھی تک دھندلکے میں تھیں روشن ہوئیں۔
معنیات میں ان طریقوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جن سے زبان میں معنی سمجھنا مقصود ہو۔
معنیات کا دوسرا نام لغویات ہے ۔معنویات لفظ معنی سے ہے۔ جس سے مراد مفہوم جاننے کا ہے۔ لسانی تغیرات میں معنویات کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ لغوی معنوی تبدیلی کے ذیل میں کلمے کا حوالہ ایک منظم اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔مختلف زبانوں میں الفاظ کا کثرت سے اشتراک یا ان کے درمیان گہری مماثلت اور مطابقت ان میں باہمی لسانی رشتوں کی غمازی کرتی ہیں۔ لیکن الفاظ کا یہی گہرا اشتراک کسی سابق دور میں ان زبانوں کی حامل اقوام کے آباو اجداد کے درمیان گہرے تہذیبی رشتےیا وسیع تجارتی تعلقات کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے،۔ فارسی اور ہنسپانوی میں عربی اور اردو برصغیر کے شمالی حصے کی دیگر زبانوں میں پرتگیزی عناصر کی موجودگی واضع ہے۔
مثالیں۔
وسطی انگریزی کا ماس بدل کر ماوس ہو گیا مگر مدلول وہی رہا۔ سنسکرت میں وردل نے جدید آریائی میں بادل کا بہروپ بھرا مگر معنی میں کوئی فرق نہ آیا۔
زبانوں کی معنویاتی تبدیلیوں کے سلسلے میں کلموں کے متروک ہوتے رہنے اور نئے کلموں کے جنم لیتے رہنے کے عمل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہر زبان کے ارتقائی سفر میں کچھ کلموں کا چلن کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتے ہیں ۔جیسےمیزان عربی میں ترازو کو کہتے ہیں لیکن اردو مین جمع کے معنی میں مستعمل ہے۔ عمارت کو آبادی کے بجائے بڑے مکان کے معنی دیے۔ غریب لفظ مسافر کے لیے تھا مگر اس کا مفہوم بلکل ہی بدل کیا ہے۔
ج۔ نحویات
کسی زبان میں الفاظ کی مخصوص اور با معنی ترتیب کونحویات کہتے ہیں۔ زبان میں جملوں کی ساخت اور جملوں میں لفظوں کی ترتیب کے قاعدوں کا مطالعہ نحویات کے ذیل میں آتا ہے۔مثلاً( احمد نے کھانا کھایا)۔ یہ اردو نحو کے اعتبار سے الفاظ کی صحیح ترتیب ہے۔اگر اس کے بدلے یوں کہا جائے کہ( کھانا کھایا احمد نے)تو اس کے معنی کی ترسیل پیچیدگی کا باعث بنے گی۔صرف و نحو کو ملاکر زبان کی قواعد کہا جاتا ہے۔
علم نحو کسی زبان کے جملوں کی ساخت اور جملوں میں لفظوں کی ترتیب کے قاعدوں کا مطالعہ ہے۔
رواج پائے ہوئےجملوں کی ساخت اور لفظوں کی ترتیب کے قاعدوں کا مطالعہ نحویات کہلاتا ہے۔
نحویات لفظ نحو سے ہے اس میں معنی و مفہوم کے لحاظ سے کلموں اور ان کی تبدیلیوں ۔ جملوں کی ماہیت۔ ان جملوں میں کلموں کی ترتیب۔ مطابقت اور معنوی رشتوں کو موضوع ِ بحث بناتے ہیں۔کلمے اور کلموں کے گروہ جن سے مکمل ۔ بامعنی کلام ترتیب پاتا ہے یعنی مفرد اور مرکب جملے یہ حصہ علمِ تحو کہلاتا ہے۔اس میں جملوں کی ساخت کلموں کی ترتیب مطابقت اور ان کے باہمی ر شتوں پر منحصر ہوتی ہے ۔ گویا یہ جملے کے تین اصول بیان کرتے ہیں کلماتی ترتیب مطابقت اور نحوی رشتے جملے کا جزو ترکیبی بنبے والا فقرہ کبھی کبھی خود بھی ایک مکمل جملہ ہو جاتا ہے۔
بامعنی کلام یا جملہ ہی پوری بات یا خیال کے ابلاغ کا حق ادا کرتا اور زبان کی غرض و غائیت پوری کرتا ہے جملہ ہی کلام کا وہ بڑے سے بڑا ڈھانچہ ہے جس میں قواعد ی عناصر اور ان کے زمروں کے باہمی تعلق کی بھرپور نمائندگی ہوتی ہے اس بدولت کلمے کے وہ سیاق و سباق سامنے آتے ہیں جن سے معنی کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔ اس کو قواعدی تجزیے کی سب سے بڑی اور ساختیاتی توضیح کی اہم ترین سطح قرار دے سکتے ہیں۔
د۔ مارفیمیات (صرفیات)
صرفیات کو اردو میں مارفیمیات بھی کہتے ہیں۔ یہاں الفاظ کی ساخت، اس کے اصول و قواعد اور اس کے استعمال سے بحث ہوتی ہے۔زبان کی چھوٹی سے چھوٹی بامعنی اکائیوں جیسے الفاظ کی تذکیرو تانیث، ان کی تعداد، حالات و کیفیات، زمانہ اور اضداد وغیرہ کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔
صرف میں کسی زبان میں موجود چھوٹی چھوٹی صرفی اکاییوں کا مطالعہ ہوتا ہے۔ اصل میں یہ لفظ کی سطح تک زبان کا صرفی مطالعه ہے۔
یہ علم گرائمر کی گردان سے تعلق رکھتا ہے۔ لسانیات کی رو سے گرامر بنیادی طور پر ناقابلِ تقسیم معنوی اکائی یا اقل ترین معنوی اکائی سے بحث کرتی ہے۔اس اکائی کو مارفیم کے نام سے تعبیر کیا جایا ہے۔اردو میں اس کے لیے معنیہ کی اصلاح بھی استعمال کی گئی ہے۔ مارفیم کی دو ہیتیں ہیں۔آزاد مارفیم اور پابند مارفیم
آزاد مارفیم خود ایک کلمہ ہے مگر پھر بھی مزید کلمے تشکیل کر سکتی ہے۔ پابند مارفیم کسی نہ کسی اور کم از کم ایک مارفیم کے ساتھ یہ استعمال ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ گرامر ایک ایسا نظام ہے جو معنیوں اور ان کے باہمی رشتوں پر تعمیر کیا جاتا ہے۔آزاد مارفیم خود معنی دیتا ہے مگر پابند مارفیم کسی نہ کسی اور مارفیم سے مل کر کلمہ تشکیل دیتی ہے۔مختلف زبانوں میں معنیوں ۔کلموں اور فقروں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
آزاد مارفیم کو پانچ تکڑوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔۔
لغوی مارفیم
قواعدی مارفیم
الحاقی مارفیم
نحوی مارفیم
اسلوبیاتی مارفیم
ھ۔ فونیمیات یا علم الصوتیہ Phonemics یہ لسانیات کی دوسری اہم شاخ فونیمیات ہے۔ اس کی بنیاد صوتی اکائی کے تصور پر رکھی گئی ہے جسے صوتیہ یا فونیم Phoneme کہتے ہیں۔ ہم جب بولتے ہیں تو ہمارے منھ سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ مختلف آوازوں کے سلسلے ہوتے ہیں جن میں ایک آواز اپنے آگے پیچھے آنے والی آوازوں سے متاثر ہوتی رہتی ہے
لسانیات کی یہ شاخ، کسی زبان میں کام آنے والی اہم اور تفاعلی آواز کا مطالعہ کرتی ہے۔ایک زبان میں استعمال ہونے والی آوازوں کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے لیکن فونیمات کی تعداد محدود اور مقرر ہوتی ہیں۔ اردو میں فونیمات کی صحیح تعداد کے بارے میں بھی علمائے لسانیات کے مابین ذرا سا اختلاف رائے پا یا جاتا ہے۔کوئی ان کی تعداد (۵۸) کوئی(۴۸) اور کوئی(۴۴) قرار دیتا ہے۔ملاحظہ کیجئے: ۱۔اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو از: گوپی چند نارنگ ۲۔ خلیل احمد بیگ از: اردو زبان کی تاریخ ۳۔اردو لسانیات کی تاریخ از: درخشاں زریں
بقول پروفیسر ابوالکلام۔کسی بھی مخصوص زبان کی چھوٹی سی چھوٹی تکلمی آواز کو فونیم کہتے ہیں اور اسی تکلمی آواز.، اکائی یا فونیم کا سائنسی مطالعہ فونیمیات کہلاتا ہے
کسی مخصوص زبان کی تکلمی آوازوں کے طرز ہائے اور نظام ہائے کہ سائنسی مطالعے کو بنیادی طور پر فونیمیات کہتے ہیں
علم کی وہ شاخ جس میں ہم مختلف زبانوں میں استعمال ہونے والی اہم اصولی آوازوں کو متعین کرتے ہیں